"The sky cracked open, thunder rolling like a warning. Somewhere between the rain and regret, two fates were about to collide."
عینی مزے سے یہاں وہاں گھومتی ان خوبصورت ملبوسات کو تادیبی نظروں سے دیکھ رہی تھی
" او ہو میڈم شاپنگ کر رہی ہے مطلب آج کسی دکان کا برا دن ہے"
تب ہی امان وہاں موڈ میں آ کر بولا
" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ شاپنگ مال تمہارے بجٹ سے باہر نہیں ہے"
عینی نے ابرو اٹھا کر کہا
" ارے تم سے ملنے کے لیے کوئی وی آئی پی پاس لگتا ہے "
امان نے ڈرامائی انداز میں کہا
" نہیں پر لگنا چاہیے "
امان اس کی بات پر ہنس دیا پھر تھوڑا قریب آیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو
" ویسے میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں"
" کیا ؟"
عینی جیسے تھک ہار کر بولی تھی
"جب تم میرے ساتھ ہوتی ہو نا تو مجھے لنڈا بازار بھی شاپنگ مال لگتا ہے "
امان نی شرارت سے کہا عینی ایک سیکنڈ کے لیے بلینک ہوئی پھر گھور کر اس کو دیکھا
" مطلب ؟"
" مطلب یہ کہ تمہاری کمپنی چیزیں اپ گریڈ کر دیتی ہیں عام جگہ بھی لگثری فیل ہونے لگتی ہے "
امان نے کندھے اچکا کر کہا
"واہ مطلب اگلا سٹیپ یہ ہے کہ تم روڈ سائیڈ چائے کو سٹار بکس کہنا شروع کر دو گے "
عینی نے متاثر ہو کر جیسے تالی بجائی تھی " اچھا آئیڈیا ہے نیکسٹ ٹائم ٹرائی کروں گا"
وہ سوچنے کے انداز میں بولا عینی نے تنگ آ کر پھر سے چلنا شروع کر دیا امان بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جیسے مذاق اڑانا اس کی ڈیوٹی ہو
" ویسے تمہارے ساتھ رہ کے مجھے لگتا ہے کہ سیکنڈ ہینڈ چیزیں بھی فرسٹ ہینڈ لگنے لگتی ہیں "
عینی نے رک کر غصہ بھری نظروں سے اس کو دیکھا
" مطلب میں سیکنڈ ہینڈ لگتی ہوں تمہیں؟"
" نہیں یار تمہاری کمپنی کا امپیکٹ بتا رہا تھا ۔ تم تو مس انڈر سٹینڈ کر گئی ہو"
امان نے مصنوعی معصومیت سے کہا
" تمہیں شاپنگ مال کے لیے اولمپک میڈل ملنا چاہیے"
وہ جو پھر سے چلنا شروع کر چکی تھی امان کی بات پر رک کر اسے گھورا
" ہاں اور تمہیں تنگ کرنے کا ملنا چاہیے "
" تنگ نہیں یار بس سچ بول رہا ہوں ویسے تمہیں اتنی شاپنگ کیسے پسند ہے مطلب ایک ڈریس اٹھانے میں آدھا گھنٹہ اس کو دیکھنے میں دوسرا آدھا گھنٹہ اور پھر بھی ڈیسائیڈ نہیں ہوتا "
عینی نے آنکھیں گھمائیں پھر ایک ڈریس اٹھا کر اس کے سامنے کیا
" مجھے کوالٹی دیکھنی ہوتی ہے کلر دیکھنا ہوتا ہے فٹنگ دیکھنی ہوتی ہے"
" میری ماں مجھے تو بس یہ سوچنا ہوتا ہے کہ یہ کپڑا ہے اور پہن سکتا ہوں یا نہیں"
امان نے ہاتھ جوڑے
" اسی لیے تو تمہیں فیشن کا کوئی سینس نہیں ہے "
عینی نے چہک کر کہا
" فیشن کے نام پر ایک بلیک شرٹ اور جینز کافی ہے "
عینی نے ایک شرٹ اٹھا کر اس کے سامنے کی
" یہ کلر ٹرائی کر کے دیکھو بہت اچھا لگے گا"
امان نے ڈریس کا رنگ دیکھا
" برائٹ ییلو ؟"
اس نے ہاتھ جوڑے
" معاف کرو مجھے چمکنا نہیں ہے"
" تم جاؤ یہاں سے اور مجھے کونسنٹریٹ کرنے دو "
عینی نے آنکھیں چھوٹی کر کے دکھائیں
" ٹھیک ہے میڈم میں جا رہا ہوں جب تمہاری شاپنگ کی سینچری مکمل ہو بتا دینا"
عینی نے گھورا جب کہ وہ فوڈ کورٹ کی طرف بڑھ گیا
☆☆☆
ایک ہفتہ کیسے گزرا، کچھ معلوم ہی نہ ہو سکا۔
شادی کی تیاریوں میں وقت جیسے پروں سے اُڑ رہا تھا۔ نکاح سے ایک دن پہلے لڑکیوں نے برائیڈل شاور رکھ لیا۔
"تو یار، تم دونوں بھی اپنا برائیڈل شاور رکھ لو!"
امان نے سنجیدگی سے مشورہ دیا تو ذریاب نے قہقہہ مارا اور آتش نے دانت پیس لیے۔
"ابے او بے وقوف! برائیڈل شاور لڑکیوں کا ہوتا ہے، لڑکوں کا نہیں!"
ذریاب نے امان کو بالوں سے پکڑ کر زور سے ہلایا۔
"جانتا ہوں میں! تُجھے بتانے کی ضرورت نہیں!"
امان نے بال چھڑاتے ہوئے چِلّا کر کہا۔
اس وقت وہ سب آتش ولا کے بڑے سے لان میں بیٹھے تھے، جہاں پورا لان پرپل تھیم میں سج رہا تھا۔ شام تک تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں جب مہر اور مشعل پارلر سے تیار ہو کر واپس آئیں۔ دونوں دلہنیں ایک ساتھ برائیڈل شاور منا رہی تھیں۔
"تم دونوں اپنے بینک اکاؤنٹس پر ابھی سے فاتحہ پڑھ لو۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ بچیں گے!"
امان نے چٹکی لی تو ذریاب نے فوراً پلٹ کر کہا،
"جب تیری لو میرج ہوگی نا، تب پوچھوں گا فاتحہ پڑھنی ہے یا قل!"
"یا اللہ، مجھے ایسی بیوی دینا جس کی نظر صرف مجھ پر ہو، میرے پیسوں پر نہیں، آمین!"
امان نے فوراً ہاتھ اٹھا لیے تھے۔
آتش ان سب کی باتیں سن کر بیزار ہوتا جا رہا تھا۔ دل تو کر رہا تھا سب تہس نہس کر دے یا خود کہیں غائب ہو جائے۔ مہر کی ضدیں اور بے باکی اُسے اندر ہی اندر جلا رہی تھی۔
برائیڈل شاور کا آغاز ہوا تو خاندان کے لڑکوں کو گھر سے نکال دیا گیا۔
"یار، ہم اندر نہیں جائیں گے، بس ایک طرف بیٹھ جائیں گے!"
علی نے آخری کوشش کی، مگر ایمل اور مومنہ نے صاف انکار کر دیا۔
"سب کچھ اوپن ایریا میں ہے، ڈنر کے لیے ریسٹورنٹ چلے جاؤ، چلیں بھئی، جلدی!"
علی منہ بناتا ہوا باقی سب کے ساتھ چل پڑا۔
رات گئے سب کی واپسی ہوئی۔ پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ آتش دبے قدموں سے سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ ایک بج چکے تھے۔ وہ جانتا تھا سب سو چکے ہوں گے۔
کپڑے لے کر وہ باتھ روم میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد گلاس ونڈو کے پاس جا کر رک گیا۔ چاند کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا، ٹھنڈی ہوا سانسوں سے ٹکرا کر اندر اُتری، ایک لمحے کو دل کو سکون سا محسوس ہوا۔
آنکھیں بند کیے وہ چند گہرے سانس لیتا رہا، پھر پردے برابر کر کے واپس بیڈ پر آ گیا۔
کل نکاح تھا۔
اس کا دل چاہ رہا تھا یہ سب رُک جائے۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ کیسے یہ نکاح ٹال سکتا ہے، مگر کوئی بھی ایسا طریقہ نہ سوجھا جو بےآواز ہو، بےاثر نہ ہو۔
جھنجھلا کر وہ اٹھ بیٹھا۔ نیند ویسے ہی غائب تھی۔
بنا کچھ سوچے موبائل اٹھایا اور ایک نمبر ڈائل کر دیا۔ اُسے یقین تھا، نہ وہ سوئی ہوگی اور نہ اس کی کال نظر انداز کرے گی۔
دوسری بیل پر کال اُٹھا لی گئی۔
"ہیلو؟"
اس نے احتیاط سے کہا، مگر دوسری طرف خاموشی تھی۔
"کیا تم سن رہی ہو؟"
بالآخر اس نے پکارا۔
"آپ سے سُننے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتی ہوں؟"
دوسری جانب کی آواز میں تھکن بھی تھی اور شکوہ بھی۔
آتش کے لب غصے سے بھنچ گئے۔
"سچ سچ بتاؤ، مہر! کیا تم نے خالہ سے بات کی ہے؟"
سوال کے ساتھ ہی جیسے سانس روک لی ہو اس نے۔ دوسری طرف چند لمحوں کی خاموشی چھائی رہی... پھر کال کٹ گئی۔
آتش نے بے یقینی سے سیاہ سکرین کو دیکھا۔
"تم نہیں بچو گی، مہر... میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔"
اس نے غصے میں موبائل پٹخا اور نیم دراز ہو گیا۔
☆☆☆
صبح اس کی آنکھ دروازے پر ہونے والی مسلسل دستک سے کھلی۔ بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔
"کون ہے؟"
اس کی آواز نیند سے بوجھل تھی۔
"بھائی بس کریں، اور کتنا سوئیں گے؟ وقت دیکھیں، بارہ بجنے والے ہیں!"
علی کی جھنجھلائی آواز دروازے کے پار سے آئی۔
کرنٹ کھا کر اس نے موبائل اٹھایا۔ واقعی! دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی تھی، یہ پہلا موقع تھا جب وہ سات کے بجائے اتنی دیر تک سویا تھا۔ شاید تھکاوٹ حد سے بڑھ گئی تھی۔
"تم چلو، میں آتا ہوں،"
بیزاری سے جواب دے کر موبائل ایک طرف رکھا۔
"بھائی، ذرا جلدی کریں! شام کو نکاح آپ کا ہے، میرا نہیں!"
علی کی آواز اب دور ہوتی جا رہی تھی، اور وہ غصے سے پیر پٹختا ہوا دروازہ کھولنے بھاگا، مگر تب تک علی جا چکا تھا۔
"کیا مصیبت ہے۔۔۔"
چہرے پر ناگواری لیے وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد جب وہ تیار ہو کر کمرے سے نکلا، تو پورے گھر میں چہل پہل تھی۔ سب خوش اور مصروف تھے، مگر وہ... سب سے الگ، جیسے کسی اور ہی دنیا کا باشندہ ہو۔
بغیر کسی سے بات کیے وہ سیدھا تہمینہ بیگم کے کمرے میں چلا گیا۔
"ارے آتش بیٹا، اٹھ گئے تم؟ اللہ کا شکر ہے!"
ماں کی آواز میں سچ میں راحت تھی۔
وہ شرمندہ سا ہو گیا، نظریں چرائیں۔
"سوری امی، اصل میں بہت تھکا ہوا تھا، اسی لیے۔۔۔"
"ارے کوئی بات نہیں بیٹا، میں جانتی ہوں۔ جا کے ناشتہ کرو، پھر علی سے کہو تمہاری تیاری میں مدد کرے۔ یہ رہے تمہارے کپڑے۔"
انہوں نے بیڈ پر رکھے کپڑے اٹھا کر اس کی طرف بڑھائے۔
دل کی کسی بند گلی میں کچھ زور سے دھڑکا۔ اس نے کپڑے لے لیے۔
"امی پلیز۔۔۔"
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، پر تہمینہ بیگم نے ہاتھ اٹھا دیا۔
"شکریہ کی ضرورت نہیں بیٹا۔"
اور وہ بنا کچھ سنے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
وہ کچھ بول بھی نہ سکا۔
پھر جیسے سب کچھ خودبخود ہوتا چلا گیا۔
وہ کیسے تیار ہوا، کیسے سٹیج تک پہنچا، کیسے مہر کو اس کے سامنے لا کر بٹھایا گیا—سب دھندلا سا تھا۔
ذریاب اس کے ساتھ دوسرے صوفے پر بیٹھا تھا، اور ان کے بیچ پھولوں کی لڑیوں کے اس پار دو حسین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ وہ پریاں... جو چند لمحوں بعد ان کی "ملکیت" بننے والی تھیں۔
اسے ہوش تب آیا، جب مولوی صاحب نکاح پڑھا چکے تھے، اور اب مہر سے سوال کر رہے تھے:
"بیٹی، کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
خاموشی تھی۔
بہت گہری خاموشی۔
آتش کی سانسیں جیسے رک گئیں۔
"پلیز مہر، منع کر دو۔۔۔ نہ کر دو۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گا، ابھی بھی وقت ہے۔۔۔ بس ایک نہ۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں چیخ رہا تھا۔
لیکن۔۔۔
"قبول ہے،"
مہر کی نرم مگر واضح آواز نے اس کے اندر کچھ توڑ دیا۔
اس نے ایسی گہری سانس لی جیسے آخری ہو۔
اب سوال اس سے تھا۔
"آتش زایان، کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
خاموشی۔
پھولوں کے اس پار سے مہر نے ہولے سے گھونگھٹ کے پیچھے سے نظر اٹھائی۔
اور پھر۔۔۔ بہت دیر بعد۔۔۔
"قبول ہے۔"
فضا مبارکباد کے شور سے گونج اٹھی۔
رضا خالو سب سے پہلے اس سے ملے۔
"میری بیٹی اب تمہاری امانت ہے، اس کا خیال رکھنا،"
انہوں نے شفیق انداز میں اس کا کندھا تھپتھپایا۔
وہ کچھ بول بھی نہ سکا۔
ذریاب مسرور تھا، پھولوں کی لڑیاں ہٹائیں، اپنی نئی نویلی دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا۔
"ماشاءاللہ،"
اس کے دل سے بے اختیار نکلا۔
مشعل جھینپ کر مسکرا دی۔
ذریاب نے محبت سے اس کی پیشانی چومی، ہاتھ تھاما، اور آہستہ سے اسے اپنے قریب کھینچ لیا۔
"پاگل ہو گئے ہو زریاب؟"
وہ بوکھلائی۔
"پاگل نہیں، تمہارا شوہر ہوں۔ اب تو تمہیں سب کے سامنے بھی اٹھا کر لے جا سکتا ہوں،"
وہ شرارت سے بولا۔
مشعل بری طرح شرما گئی۔
سب ملنے لگے، مبارکبادیں دینے لگے۔
آتش نے ذریاب کو گلے لگایا۔
لیکن مہر۔۔۔
نہ اسے دیکھا، نہ اسے چھوا، نہ کوئی جذبہ باقی بچا تھا۔
نہ وہ اس کے قریب گیا، نہ دل کے۔
Aini is at the shopping mall, admiring beautiful clothes, while Amaan teases her, and a playful banter continues between them. Amaan tells Aini that his company upgrades things, but Aini keeps teasing him. Later, after a week of preparations, the girls' bridal shower takes place, where Amaan jokes around and mocks Zaryab and Atish.
Atish is torn in his mind about marrying Meher. He tries to talk to Meher, but she doesn't answer his call. On the wedding day, Atish's sleep is disturbed, and he wakes up early. The preparations for the wedding and his internal turmoil intensify. Amid Meher's silence and Atish's struggle, the nikah ceremony begins. The Imam asks Meher if she accepts, and she replies "Qubool hai," which leaves Atish's heart shattered.
Finally, despite Meher's silence, Atish accepts the nikah, and the atmosphere is filled with congratulations. Zaryab celebrates with his bride Mashal after the nikah, but there is no spark between Atish and Meher. Atish stays distant from Meher, and everything between them remains still and emotionless.